Effective Planing need agianst extremism


انتہاء پسندی کے خلاف موثر حکمت عملی کی ضرورت
انتہاء پسندی کے خلاف موثر حکمت عملی کی ضرورت


افغانستان میں جاری امریکی جنگ کے اثرات سے پاکستان کی سرزمین متاثرہوئی ہے شاید اتنی امریکہ کی اپنی سرزمین نہیں ہوئی ۔اس کی وجہ پاکستان کی سرزمین پر موجود مذہبی انتہاء پسند ہیں جن کا عقیدہ صرف یہ ہے کہ دین اسلام کے دشمن کے خلاف صف آراء ہو کر مکمل طور پر جنگ کی جائے یعنی 'جہاد' کیا جائے۔اور ان کا وجود کو ختم کیا جائے۔اس انتہاء پسندی کا جنم ان مذہبی مدراس کے اندر ہوا جو دنیا کی تیز رفتاری میں پیچھے رہے گئے ہیں اور جو مناجات کی ِذہینت رکھتے ہیں۔



اس تفرقہ بازی اورانتہاء پسندی کی پھپھوندی کا اسلامی تہذیب کے درخت پر جنم قیام پاکستان سے قبل ہی ہو گیا تھا مگر بعد میں حالات نشوونماء کے لے سود مند ثابت ہوئے اس لئے پھلنے پھولنے میں دیر نہ لگی معاشرے کے لئے مفید درخت نے مضر صحت تنا وار درخت کی شکل اخیتار کر لی۔ اس کے مضر صحت ہونے کی وجہ معاشرہ ہی تھا اور ہیںورنہ اس پودے اصل نسل کے ثمرات سے تقریباً آٹھ سوسالوں تک دنیا اس کی افادیت سے فائدہ حاصل کرتی رہی اور اس کی امامت کو تسلیم کرتی رہی ۔اس خرابی کے محرک معاشرے کے دو گروہ تھے ایک نے اس کو پرانی تہذیب کا پاسبان سمجھ کر نہ اہمیت دی اور نہ ہی اس کا علاج کرنے کے لئے کوشش کی بلکہ اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔دوسراگروہ اس کے متولیوں کا تھاجس نہ ہی اس بات کی کوشش کی کہ وہ اس احساس کمتری اور معاشرے کے اندر غیر فعالیت اور غیرموثر ہونے جس کے بناء پر یہ پھپھوندی نشوونماء کر رہی تھی اس کا علاج کرتے بلکہ اس میں مزید اضافہ بھی کیا انگریزی تعلیم کو اس درخت کی نئی شاخوں اوراپنے اوپر حرام سمجھ کرنئی اور پرانی تہذیب کے درمیان اور ساتھ ساتھ اپنے اندر چند غلط فہمیوں کے بنائ، عدوات کی طویل خلیج کھڑی کردی۔ جس کے نیتجے میں ایسے پھل ملے جو نئی تہذیب اور اپنے ہی لوگوں سے عدوات کے رس سے بھرے ہوئے مگر دنیا کے لئے بیکار تھے اور دونوں گروہ ایک دوسرے کی ضد بن گئے۔



ہمارے ملک میں جو تفرقہ بازی اور انتہاء پسندی کے مسائل درپیش ہیں ان کی جڑ یہی ضد ہے جو ان طبقات کے اندر موجود ہے ۔اس ضد کا علاج کرنے کے لازمی ہے کہ دونو ں گروہوں کے درمیان مصلحتی راہ اختیار کی جائے۔ اس کے لئے لازم ہے کہ پرانی تہذیب کے کیمپ کو ویسی اہمیت دی جائے جیسے نئی تہذیب کے کیمپ کو حاصل ہے۔



کیونکہ زیادہ خرابیاں پرانی تہذیب کے کیمپ کے اندر ہیں اس لئے زیادہ اصلاح کی ضرورت یہیںدرکا ر ہیں۔پہلے تو ایک اچھے معالج کی طرح ہمیں خرابی کا اندازہ لگانا چاہیے اور اس کی نوعیت کس قسم کی ہے۔ کیونکہ مسائل کی وجہ پرانی تہذیب کے افراد کو نظر انداز کر ناہے اور ان کو کاروبار زندگی میںکم اہمیت دینا ہے اس کی وجہ پرانا طرز تعلیم ہے جو آج کے سائنٹیفک معاشرے میں ناکام ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لئے لازمی ہے ان کے طریقہ نظام تعلیم کو تبدیل کیا جائے ۔اس کام میں حکومت کوایک موثر اورفعال کردار ادا کرنا ہو گا ۔



&

پہلے تو دینا میںموجود اسلامی یونیورسٹیوں کے نظام تعلیم کا مکمل مطالعہ کیا جائے خصو ضاً اسلامی یونیورسٹی مدنیہ منورہ ۔ جس طرح دینی نصاب سائنٹیفک اور نئے دورکے اصولوں کے مطابق جامعہ اسلامی مدنیہ منورہ میں تشکیل دیا گیا ہے ویسے ہمیں پاکستان کے یونیورسٹیوں اور مدراس میں تشکیل دینا چاہیے اور تحقیقی یعنی فقہ اور اسلامی شریعہ کے قوانین میں ریسرچ کو ماسٹر کے درجے پر لازم قرار دیا جائے۔

ہمارے ملک میں یونیورسٹیوں کے اندر شعبہ علوم اسلامیہ اگرچہ موجو دہے مگر اسلامی تعلیم کی صحیح روح اس میں موجود نہیں۔اس کے لئے ہمیں جامعہ اسلامی مدنیہ کی طرح ۴ سالہ بیچلر'۳ سالہ ماسٹر اور تحقیق پھرآخر میں پی ایچ ڈی کے بنیادوں پر ڈگری دی جانی چاہیے۔تمام دینی مدراس کو ان کو جامعات کے ساتھ الحاق کرانا لازمی ہو، تاکہ وہ بھی اس نصاب کواپنے مدراس کے اندر لاگو کرنے کے پابند ہوں اور جوپاس شدہ طالب علموں کو ڈگری یا سندکا اجراء یونیورسٹی کی طرف سے کیا جائے۔اس طرح ان لوگوں کو ڈگری نجی ادارے کے طرف سے ہونے کی بجائے ایک سرکاری ادارے کے طرف سے ہوگی جس کو قومی اور عالمی معاشرہ میںاہمیت حاصل ہوگی اور یوں معاشرے کا اہم حصہ ملک کےلئے کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔جو احساس کمتری کی وباء ان لوگوں کو انتہاپسندی کی طرف راغب کرتی ہے اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔

انتہاء پسندی کے خلاف موثر حکمت عملی کی ضرورت
انتہاء پسندی کے خلاف موثر حکمت عملی کی ضرورت


افغانستان میں جاری امریکی جنگ کے اثرات سے پاکستان کی سرزمین متاثرہوئی ہے شاید اتنی امریکہ کی اپنی سرزمین نہیں ہوئی ۔اس کی وجہ پاکستان کی سرزمین پر موجود مذہبی انتہاء پسند ہیں جن کا عقیدہ صرف یہ ہے کہ دین اسلام کے دشمن کے خلاف صف آراء ہو کر مکمل طور پر جنگ کی جائے یعنی 'جہاد' کیا جائے۔اور ان کا وجود کو ختم کیا جائے۔اس انتہاء پسندی کا جنم ان مذہبی مدراس کے اندر ہوا جو دنیا کی تیز رفتاری میں پیچھے رہے گئے ہیں اور جو مناجات کی ِذہینت رکھتے ہیں۔



اس تفرقہ بازی اورانتہاء پسندی کی پھپھوندی کا اسلامی تہذیب کے درخت پر جنم قیام پاکستان سے قبل ہی ہو گیا تھا مگر بعد میں حالات نشوونماء کے لے سود مند ثابت ہوئے اس لئے پھلنے پھولنے میں دیر نہ لگی معاشرے کے لئے مفید درخت نے مضر صحت تنا وار درخت کی شکل اخیتار کر لی۔ اس کے مضر صحت ہونے کی وجہ معاشرہ ہی تھا اور ہیںورنہ اس پودے اصل نسل کے ثمرات سے تقریباً آٹھ سوسالوں تک دنیا اس کی افادیت سے فائدہ حاصل کرتی رہی اور اس کی امامت کو تسلیم کرتی رہی ۔اس خرابی کے محرک معاشرے کے دو گروہ تھے ایک نے اس کو پرانی تہذیب کا پاسبان سمجھ کر نہ اہمیت دی اور نہ ہی اس کا علاج کرنے کے لئے کوشش کی بلکہ اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔دوسراگروہ اس کے متولیوں کا تھاجس نہ ہی اس بات کی کوشش کی کہ وہ اس احساس کمتری اور معاشرے کے اندر غیر فعالیت اور غیرموثر ہونے جس کے بناء پر یہ پھپھوندی نشوونماء کر رہی تھی اس کا علاج کرتے بلکہ اس میں مزید اضافہ بھی کیا انگریزی تعلیم کو اس درخت کی نئی شاخوں اوراپنے اوپر حرام سمجھ کرنئی اور پرانی تہذیب کے درمیان اور ساتھ ساتھ اپنے اندر چند غلط فہمیوں کے بنائ، عدوات کی طویل خلیج کھڑی کردی۔ جس کے نیتجے میں ایسے پھل ملے جو نئی تہذیب اور اپنے ہی لوگوں سے عدوات کے رس سے بھرے ہوئے مگر دنیا کے لئے بیکار تھے اور دونوں گروہ ایک دوسرے کی ضد بن گئے۔



ہمارے ملک میں جو تفرقہ بازی اور انتہاء پسندی کے مسائل درپیش ہیں ان کی جڑ یہی ضد ہے جو ان طبقات کے اندر موجود ہے ۔اس ضد کا علاج کرنے کے لازمی ہے کہ دونو ں گروہوں کے درمیان مصلحتی راہ اختیار کی جائے۔ اس کے لئے لازم ہے کہ پرانی تہذیب کے کیمپ کو ویسی اہمیت دی جائے جیسے نئی تہذیب کے کیمپ کو حاصل ہے۔



کیونکہ زیادہ خرابیاں پرانی تہذیب کے کیمپ کے اندر ہیں اس لئے زیادہ اصلاح کی ضرورت یہیںدرکا ر ہیں۔پہلے تو ایک اچھے معالج کی طرح ہمیں خرابی کا اندازہ لگانا چاہیے اور اس کی نوعیت کس قسم کی ہے۔ کیونکہ مسائل کی وجہ پرانی تہذیب کے افراد کو نظر انداز کر ناہے اور ان کو کاروبار زندگی میںکم اہمیت دینا ہے اس کی وجہ پرانا طرز تعلیم ہے جو آج کے سائنٹیفک معاشرے میں ناکام ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لئے لازمی ہے ان کے طریقہ نظام تعلیم کو تبدیل کیا جائے ۔اس کام میں حکومت کوایک موثر اورفعال کردار ادا کرنا ہو گا ۔



&

پہلے تو دینا میںموجود اسلامی یونیورسٹیوں کے نظام تعلیم کا مکمل مطالعہ کیا جائے خصو ضاً اسلامی یونیورسٹی مدنیہ منورہ ۔ جس طرح دینی نصاب سائنٹیفک اور نئے دورکے اصولوں کے مطابق جامعہ اسلامی مدنیہ منورہ میں تشکیل دیا گیا ہے ویسے ہمیں پاکستان کے یونیورسٹیوں اور مدراس میں تشکیل دینا چاہیے اور تحقیقی یعنی فقہ اور اسلامی شریعہ کے قوانین میں ریسرچ کو ماسٹر کے درجے پر لازم قرار دیا جائے۔

ہمارے ملک میں یونیورسٹیوں کے اندر شعبہ علوم اسلامیہ اگرچہ موجو دہے مگر اسلامی تعلیم کی صحیح روح اس میں موجود نہیں۔اس کے لئے ہمیں جامعہ اسلامی مدنیہ کی طرح ۴ سالہ بیچلر'۳ سالہ ماسٹر اور تحقیق پھرآخر میں پی ایچ ڈی کے بنیادوں پر ڈگری دی جانی چاہیے۔تمام دینی مدراس کو ان کو جامعات کے ساتھ الحاق کرانا لازمی ہو، تاکہ وہ بھی اس نصاب کواپنے مدراس کے اندر لاگو کرنے کے پابند ہوں اور جوپاس شدہ طالب علموں کو ڈگری یا سندکا اجراء یونیورسٹی کی طرف سے کیا جائے۔اس طرح ان لوگوں کو ڈگری نجی ادارے کے طرف سے ہونے کی بجائے ایک سرکاری ادارے کے طرف سے ہوگی جس کو قومی اور عالمی معاشرہ میںاہمیت حاصل ہوگی اور یوں معاشرے کا اہم حصہ ملک کےلئے کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔جو احساس کمتری کی وباء ان لوگوں کو انتہاپسندی کی طرف راغب کرتی ہے اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔

Read more >>
Bookmark and Share

0 comments: