Goverment Authorities and Public trailes


اگر عوام حکمرانوں کی ناانصافی اور غیر قانونی ک
ملک کے ناخدا اوران کے عوامی ٹرائل

اگر عوام حکمرانوں کی ناانصافی اور غیر قانونی کام پرآنکھیں بند کر لیں اورحکمرانوں کو احتساب سے بالا تر سمجھیں لگ جائیں تو اس عوام کی بربادی یقینی ہو جاتی ہے۔جس کی مثال ہمیں آج کے ناخدا یورپ اور امریکہ کے معاشرہ میں ملتی ہے جو کبھی غلامی اور پستی میںتھے۔ اسی پست معاشرے سے لبوں کی آزادی اور حقوق کے لئے ایسی تحریک چلی کہ مفکرین اور تجزیہ نگاروںنے اکیسویں صدی کو تبدیلی اور انقلاب کی صدی کہا ۔ مفکرین نے یہ رائے درحقیقت بیسویں صدی میں بدلتے ہوئے حالات، عوام میںاپنے حقوق کے لئے شعوری اورجس طرح آمروں کا عوامی ٹرائل اور ان کے احتساب کے لئے لہرکا اٹھنا اور کئی آمر حکومتوں کا عوام کے ہاتھوں شکست کھانا اس بناء پرتھی۔



اس تبدیلی کی ابتداء بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میںہوئی جب دنیاسے ایک پارٹی نظام کی آمر حکومتیں ،کمیونزم کی آمرحکومتیں، بادشاہت کی آمرحکومتیں اور دیگر آمرپسند حکومتوں کو پستی کا سامنا کرنا پڑا ۔ان سب حکومتوں کی پستی کا اصل محرک عوامی ٹرائل تھامگراس کے پیچھے میڈیا کا ہاتھ کار فرما تھاجیسے' ایران میں امام خمینی نے میڈیا کا سہارالیتے ہوئے ایرانی بادشاہ کے سیاہ کارناموں کو بے نقاب کرکے انقلاب لے کر آئے ۔ مصر میں اخوان المسلمون نے دونوںمیڈیا کا سہارا لے کر فوجی آمروںاوران کی حکومت میںمداخلت اور پشت پناہی کو بے نقاب کیا۔اس طرح امریکہ میںمیڈیا نے سابق صدر بش اور ان کے رفقاء کے ا فغان اور عراق میںجاری جنگ سے متعلق کئی آمرانہ فیصلوں کو بے نقاب کیاجس پر امریکی عوام نے ہی نہیں بلکہ دیگر حلیف ممالک کی عوام بھی احتجاع کے لئے سڑک پرآ گئی اور ان مقبوضہ ممالک سے فوجی انخلاء کا مطالبہ کیا۔

پاکستان جس کو وجود میں آئے تقریباً 62 برس ہو نے کو ہیں مگر ایسے واقعات کم پیش آئے ہیں جن میں ملک کی حکمران قیادت کواپنی کوتاہیوں،ناانصافیوں،اور غیرقانونی امور کے لئے عوام کے سامنے جوابدے ہونا پڑے پھران پرقانونی کاروائی کی جائے۔اگر ایسے واقعات پیش آئے بھی توصرف حزب اختلاف کے اراکین کے لئے جن پر قانونی داؤبیچ استعمال کر کے ان کے خلاف منفی پروپیگنذہ کیا جاتا اور ان کو کڑپٹ سیاستدان قرار دے کرآئندہ انتخابات کے لئے ان کی عوامی ساکھ خراب کی جائے۔ ماضی بعید او ر قریب میں حکمران جو ملک کے سیاہ و سفیدکے مالک تھے ،ان کی مرضی کے بنا ء اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان سے لے کرپولیس اسٹیشن کے عملہ کی کوئی قانونی کاروائی نہیں ہوتی تھی۔حالات یہاں تک تھے کہ حکمرانوں کے عزیز و اقارب اور خاص ووٹروں کو بھی قانون سے بالا تر سمجھے جاتے اور باوجہ کسی جرم ان پر قانونی کاروائی کرنی ہوتی تو اعلیٰ حکام سے اجازت لی جاتی او ر وی آئی پی(V.I.P )جیل ان کو فراہم کی جاتی جس میں گھر سے زیادہ سہولیات میسر کی جاتیں۔ پولیس اور دیگرسرکاری مشینری ان لوگوںکے ہاتھوں کتھ پتلی بن کر رہے جاتی۔

پاکستان میں کیچھ عرصے ایک خاموش انقلاب کی ہوا چلی ہے جس میں ملک کے حکمرانوں کی اجارہ داری کو چنیلج کرتے ہوئے اس کے خاتمہ کے لئے کوشش کی جارہی ہے ۔اس ہوا کے اثرات ہمیں سٹیل مل کیس، فرح ڈوگر کیس،جعلی ڈگری کیس،کریڈٹ کارڈ کیس اور اخترجدون کیس وغیرہ میں نظر آتا ہے جن میں ملک کے نامور اوراعلیٰ عہدوں پر فائز شحضیات ہیں جن کا اثرورسوخ پورے ملک پر قائم ہے۔مگر ہماری سرکاری مشینری نے ان حضرات سے بغاوت کرتے ہوئے ان کے غیرقانونی کاموںکوعوام کے سامنے بے نقاب کئے۔اس تبدیلی کابھی اصل محرک پاکستان میں دیگر ممالک کی طرح میڈیا ہے جس نے عوام کوحقائق بتاکرشعور دیا اور حقیقتی انقلاب کی طرف گامزن کیا۔اس انقلاب کا اتبدائی چہرہ ہمیں 18 فروری 2008 ء کے انتخابات میں نظر آتا ہے جب سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف کی خارجی وداخلی پالیسوں سے انحراف کرتے ہوئے عوام نے جنرل (ر) پرویزمشرف کی حامی پارٹی مسلم لیگ(ق) کو ملک کی تقدیر سوپنے کے بجائے اپوزیشن جماعتوں کو ووٹ دے کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کا موقع دے دیا۔اس اور دیگر مواقعوں پر عوام کے اندر آمریت کے فضیلوںکو رد کر نے کی اور بول کہ لب آزاد ہیں تیرے کی ہمت و طاقت جو میڈیا نے فراہم کی ہے اس تبدیلی رونما ہو رہیں ان سے امیدکی جاسکتی ہے کہ آئندہ کیچھ برسوں میں پاکستان سے فوجی آمریت کے ساتھ ساتھ سیاسی اور جاگیرداری آمریت کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔



اگر عوام حکمرانوں کی ناانصافی اور غیر قانونی ک
ملک کے ناخدا اوران کے عوامی ٹرائل

اگر عوام حکمرانوں کی ناانصافی اور غیر قانونی کام پرآنکھیں بند کر لیں اورحکمرانوں کو احتساب سے بالا تر سمجھیں لگ جائیں تو اس عوام کی بربادی یقینی ہو جاتی ہے۔جس کی مثال ہمیں آج کے ناخدا یورپ اور امریکہ کے معاشرہ میں ملتی ہے جو کبھی غلامی اور پستی میںتھے۔ اسی پست معاشرے سے لبوں کی آزادی اور حقوق کے لئے ایسی تحریک چلی کہ مفکرین اور تجزیہ نگاروںنے اکیسویں صدی کو تبدیلی اور انقلاب کی صدی کہا ۔ مفکرین نے یہ رائے درحقیقت بیسویں صدی میں بدلتے ہوئے حالات، عوام میںاپنے حقوق کے لئے شعوری اورجس طرح آمروں کا عوامی ٹرائل اور ان کے احتساب کے لئے لہرکا اٹھنا اور کئی آمر حکومتوں کا عوام کے ہاتھوں شکست کھانا اس بناء پرتھی۔



اس تبدیلی کی ابتداء بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میںہوئی جب دنیاسے ایک پارٹی نظام کی آمر حکومتیں ،کمیونزم کی آمرحکومتیں، بادشاہت کی آمرحکومتیں اور دیگر آمرپسند حکومتوں کو پستی کا سامنا کرنا پڑا ۔ان سب حکومتوں کی پستی کا اصل محرک عوامی ٹرائل تھامگراس کے پیچھے میڈیا کا ہاتھ کار فرما تھاجیسے' ایران میں امام خمینی نے میڈیا کا سہارالیتے ہوئے ایرانی بادشاہ کے سیاہ کارناموں کو بے نقاب کرکے انقلاب لے کر آئے ۔ مصر میں اخوان المسلمون نے دونوںمیڈیا کا سہارا لے کر فوجی آمروںاوران کی حکومت میںمداخلت اور پشت پناہی کو بے نقاب کیا۔اس طرح امریکہ میںمیڈیا نے سابق صدر بش اور ان کے رفقاء کے ا فغان اور عراق میںجاری جنگ سے متعلق کئی آمرانہ فیصلوں کو بے نقاب کیاجس پر امریکی عوام نے ہی نہیں بلکہ دیگر حلیف ممالک کی عوام بھی احتجاع کے لئے سڑک پرآ گئی اور ان مقبوضہ ممالک سے فوجی انخلاء کا مطالبہ کیا۔

پاکستان جس کو وجود میں آئے تقریباً 62 برس ہو نے کو ہیں مگر ایسے واقعات کم پیش آئے ہیں جن میں ملک کی حکمران قیادت کواپنی کوتاہیوں،ناانصافیوں،اور غیرقانونی امور کے لئے عوام کے سامنے جوابدے ہونا پڑے پھران پرقانونی کاروائی کی جائے۔اگر ایسے واقعات پیش آئے بھی توصرف حزب اختلاف کے اراکین کے لئے جن پر قانونی داؤبیچ استعمال کر کے ان کے خلاف منفی پروپیگنذہ کیا جاتا اور ان کو کڑپٹ سیاستدان قرار دے کرآئندہ انتخابات کے لئے ان کی عوامی ساکھ خراب کی جائے۔ ماضی بعید او ر قریب میں حکمران جو ملک کے سیاہ و سفیدکے مالک تھے ،ان کی مرضی کے بنا ء اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان سے لے کرپولیس اسٹیشن کے عملہ کی کوئی قانونی کاروائی نہیں ہوتی تھی۔حالات یہاں تک تھے کہ حکمرانوں کے عزیز و اقارب اور خاص ووٹروں کو بھی قانون سے بالا تر سمجھے جاتے اور باوجہ کسی جرم ان پر قانونی کاروائی کرنی ہوتی تو اعلیٰ حکام سے اجازت لی جاتی او ر وی آئی پی(V.I.P )جیل ان کو فراہم کی جاتی جس میں گھر سے زیادہ سہولیات میسر کی جاتیں۔ پولیس اور دیگرسرکاری مشینری ان لوگوںکے ہاتھوں کتھ پتلی بن کر رہے جاتی۔

پاکستان میں کیچھ عرصے ایک خاموش انقلاب کی ہوا چلی ہے جس میں ملک کے حکمرانوں کی اجارہ داری کو چنیلج کرتے ہوئے اس کے خاتمہ کے لئے کوشش کی جارہی ہے ۔اس ہوا کے اثرات ہمیں سٹیل مل کیس، فرح ڈوگر کیس،جعلی ڈگری کیس،کریڈٹ کارڈ کیس اور اخترجدون کیس وغیرہ میں نظر آتا ہے جن میں ملک کے نامور اوراعلیٰ عہدوں پر فائز شحضیات ہیں جن کا اثرورسوخ پورے ملک پر قائم ہے۔مگر ہماری سرکاری مشینری نے ان حضرات سے بغاوت کرتے ہوئے ان کے غیرقانونی کاموںکوعوام کے سامنے بے نقاب کئے۔اس تبدیلی کابھی اصل محرک پاکستان میں دیگر ممالک کی طرح میڈیا ہے جس نے عوام کوحقائق بتاکرشعور دیا اور حقیقتی انقلاب کی طرف گامزن کیا۔اس انقلاب کا اتبدائی چہرہ ہمیں 18 فروری 2008 ء کے انتخابات میں نظر آتا ہے جب سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف کی خارجی وداخلی پالیسوں سے انحراف کرتے ہوئے عوام نے جنرل (ر) پرویزمشرف کی حامی پارٹی مسلم لیگ(ق) کو ملک کی تقدیر سوپنے کے بجائے اپوزیشن جماعتوں کو ووٹ دے کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کا موقع دے دیا۔اس اور دیگر مواقعوں پر عوام کے اندر آمریت کے فضیلوںکو رد کر نے کی اور بول کہ لب آزاد ہیں تیرے کی ہمت و طاقت جو میڈیا نے فراہم کی ہے اس تبدیلی رونما ہو رہیں ان سے امیدکی جاسکتی ہے کہ آئندہ کیچھ برسوں میں پاکستان سے فوجی آمریت کے ساتھ ساتھ سیاسی اور جاگیرداری آمریت کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔



Read more >>
Bookmark and Share

0 comments: