War of terrorism and USA' s Economic Crises


عالمی دہشت گردی جنگ اورامریکی معاشی بحران

جب کوئی شخص یا قوم اپنی جھوٹی انا اور جاگیرداری برقرار رکھنا چاہتی ہے تو وہ اس کے لالچ اور حرص میں کئی کام ایسے کر جاتے ہیں جن سے ان کی بربادی لازم و ملزوم ہو جاتی ہے۔یہی مفروضہ امریکہ کی غیرمستحکم معاشی حالات پر موزوں بنتا ہے۔ امریکہ جوکہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اس دنیا کو اپنی جاگیر سمجھ کر اپنی من مانی اور اجارہ داری شروع کر دی۔اس کو جب کو9/11کے المناک واقعہ کا سامنا کرنا پڑا تواس نے اپنی جھوٹی اجارہ داری کوبرقرار رکھنے کے لئے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا اعلان کردیا۔مسلم دنیا کے کمزور ممالک یعنی عراق اور افغانستان پرجھوٹے الزامات لگا کر یہ ثابت کیا کہ دنیا میں جاری دہشت گردی کے اہم مراکزہیںاورانہی ممالک میں موجود دہشت گرد دنیا کے امن کے دشمن ہیںلہذا ان کمزور ممالک پر چڑھی کر دی تاکہ اس جھوٹی شان برقرار رہے سکے۔مگر اس جھوٹی شان کو برقرار رکھنے میں امریکہ نے معاشی طوراپنے ہی ملک کا دلوالیہ نکال دیا۔

امریکہ کے اس معاشی بحران پر کئی ماہرین معاشیات نے تبصرہ کیا ہے اور ہر ایک نے اس کو مختلف نکتہ نظر سے جانچا ہے۔مگر امریکی ادارے (Government Accountability Office (GAO کے سربراہ نے ستمبر 2007ء میں Department of Defense (DOD) کے تحت دفاعی تجارت پرتحقیقاتی دستاویز کا نگریس کے سامنے پیش کیں جس میں کانگریس کے ارکان پر واضح کیا گیا کہ وفاقی حکومت نے دفاعی تجارت میں قواعد و ضوابط کی پابندی کا خیال نہیں رکھا۔جی اے او نے مـزید یہ انکشاف کیا کہ وفاقی حکومت پر 530کھرب ڈالرکے واجبات ہیں۔جبکہ 2007ء میںادھار لی گئی رقم صرف 739 ارب ڈالرہے۔اس کے ساتھ بھی واضح کیا گیا کہ اگر حکومت نے یہی پالیسی برقرار رکھی تو ملک میں معاشی بحران آسکتا ہے۔ مگر وفاقی حکومت نے اس الٹی میٹم کو نظر انداز کر دیا۔ 2008ء میں10کھرب ڈالرسے زائد رقم ادھار لے لی۔

امریکہ نے یہ قرضے اس لئے نہیں لئے کہ ملک میں قحط یا کوئی دوسر ی آفت کا سامنا تھا حقیقتاً اس نے اپنا نام نہادرعب و دبدبہ اورنا م 'سپر پاور' برقرار رکھنے کے لئے اس نے اندرونی اور بیرونی قرضے لیے تاکہ وسیع پیمانے پر مہلک ہتھاروں کی تحقیق وتیاری اور جنگ جاری رہے سکے ۔اسی خیال کی تائیدمیں ری پبلکن کے ایک سینئر ممبر نے کہا ہے وہ آیندہ 100برس تک وہ بہ خوشی یہ جنگ جاری رکھ سکیں گے۔امریکہ کی اسی روش کو اس کے اتحادی ممالک برطانیہ،سپین،آسٹریلیااوراٹلی نے بھی اپنایا اور بہت زیادہ رقوم ادھار لیں۔

ماہرین معاشیات کے مطابق ان ممالک نے قر ضے کے حصول کے لئے مالیاتی قوائد وضبوابط میں نرمی پیدا کی گی تاکہ قرضہ کا حصول ممکن ہو سکے ۔ قرض دینے والے اداروں کوپختہ یقین ہے کہ ان کو رقوم واپس نہیں ملیں گئیںکیو نکہ ان کے یہ قرض دار فوجی طور پر انتہائی مضبوط ہیں۔جس کی بناء ان اداروں میں یکدم اتنے زیادہ رقوم کی انخلاء نے ایک خلاء کی صورت پیدا کردی جس میں قرض دینے والے اداروں کے علاوہ جن کاروباری اداروں کے ان میں حصص (Shares)تھے ان سب کا دلوالیہ نکل گیا۔جس کے نتیجے میں بین الاقومی منڈی بھی بحران کے بھنور میں آگئی۔

امریکی حکومت کی جانب سے اپنی جاگیرداری برقرار رکھنے کی اس اندھی دھن نے امریکی عوام کو پریشیانی میں مبتلا جو کیا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں بے روزگاری میں بھی اضافہ ہو ہے۔U.S. Bureau of Labor Statistics کے مطابق بے روزگاری کا تناسب جنگ کے اولین سالوں یعنی 2003-05میں 4.5% سے4% تک رہا جبکہ 2008ء میں معاشی بحران کے بعد یہ تناسب دوگناہوکر 9.5% ہو گیا۔اس کے علاوہ وہاں پرتجارتی سرگرمیاں بھی سرد ہوتی نظر آرہی ہیں ۔دنیا کی تمام بڑی اشیاء کی تیاری اورخرید وفروخت اور انکی عالمی منڈیاں امریکہ سے باہر منتقل ہورہی ہیں۔

اگرچہ بش انتظامیہ نے معاشی بحران سے نکلنے کے لئے سبسڈی کا اعلان کیا تھا جس کی توثیق موجودہ صدر اوبامہ نے بھی کی مگر حقائق یہ ہیں کہ امریکن بیوروکریسی اور عوام اس معاشی دھچکے کے بعد جنگ کا خاتمہ چاہتی ہے اس لئے انہوں نے ری پبلکن کی بجائے ڈیموکریٹک کو منتخب کیا۔انہی کی ایما ء پر صدر اوبامہ نے20,مئی 2009 ئ بدنام زمانہ جیل گوانتانامو بے کو بند کرنے کی منظوری دے دی۔عوام کے ساتھ ساتھ اوبامہ انتظامیہ بھی اس جنگ کے حق میں نظر نہیں آتی کیونکہ اس جنگ کے ذریعے جھوٹی اجارہ داری کافی عرصے تک کامیاب رہنے کی بجائے اس کشتی کے ڈبوننے کے آثار زیادہ قوی نظر آتے ہیں۔اس لئے اس جنگ سے جلد سے جلد چھٹکارا حاصل کر نا چاہتے ہیں اگر ایسا نہ کیا تو امریکہ معاشی جنگ میں ہارے ہوئے حریف کی طرح ہمیشہ کے لئے پستی میں چلا جائے گا یہاںسے اس کی واپسی ناممکن ہے۔

عالمی دہشت گردی جنگ اورامریکی معاشی بحران

جب کوئی شخص یا قوم اپنی جھوٹی انا اور جاگیرداری برقرار رکھنا چاہتی ہے تو وہ اس کے لالچ اور حرص میں کئی کام ایسے کر جاتے ہیں جن سے ان کی بربادی لازم و ملزوم ہو جاتی ہے۔یہی مفروضہ امریکہ کی غیرمستحکم معاشی حالات پر موزوں بنتا ہے۔ امریکہ جوکہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اس دنیا کو اپنی جاگیر سمجھ کر اپنی من مانی اور اجارہ داری شروع کر دی۔اس کو جب کو9/11کے المناک واقعہ کا سامنا کرنا پڑا تواس نے اپنی جھوٹی اجارہ داری کوبرقرار رکھنے کے لئے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا اعلان کردیا۔مسلم دنیا کے کمزور ممالک یعنی عراق اور افغانستان پرجھوٹے الزامات لگا کر یہ ثابت کیا کہ دنیا میں جاری دہشت گردی کے اہم مراکزہیںاورانہی ممالک میں موجود دہشت گرد دنیا کے امن کے دشمن ہیںلہذا ان کمزور ممالک پر چڑھی کر دی تاکہ اس جھوٹی شان برقرار رہے سکے۔مگر اس جھوٹی شان کو برقرار رکھنے میں امریکہ نے معاشی طوراپنے ہی ملک کا دلوالیہ نکال دیا۔

امریکہ کے اس معاشی بحران پر کئی ماہرین معاشیات نے تبصرہ کیا ہے اور ہر ایک نے اس کو مختلف نکتہ نظر سے جانچا ہے۔مگر امریکی ادارے (Government Accountability Office (GAO کے سربراہ نے ستمبر 2007ء میں Department of Defense (DOD) کے تحت دفاعی تجارت پرتحقیقاتی دستاویز کا نگریس کے سامنے پیش کیں جس میں کانگریس کے ارکان پر واضح کیا گیا کہ وفاقی حکومت نے دفاعی تجارت میں قواعد و ضوابط کی پابندی کا خیال نہیں رکھا۔جی اے او نے مـزید یہ انکشاف کیا کہ وفاقی حکومت پر 530کھرب ڈالرکے واجبات ہیں۔جبکہ 2007ء میںادھار لی گئی رقم صرف 739 ارب ڈالرہے۔اس کے ساتھ بھی واضح کیا گیا کہ اگر حکومت نے یہی پالیسی برقرار رکھی تو ملک میں معاشی بحران آسکتا ہے۔ مگر وفاقی حکومت نے اس الٹی میٹم کو نظر انداز کر دیا۔ 2008ء میں10کھرب ڈالرسے زائد رقم ادھار لے لی۔

امریکہ نے یہ قرضے اس لئے نہیں لئے کہ ملک میں قحط یا کوئی دوسر ی آفت کا سامنا تھا حقیقتاً اس نے اپنا نام نہادرعب و دبدبہ اورنا م 'سپر پاور' برقرار رکھنے کے لئے اس نے اندرونی اور بیرونی قرضے لیے تاکہ وسیع پیمانے پر مہلک ہتھاروں کی تحقیق وتیاری اور جنگ جاری رہے سکے ۔اسی خیال کی تائیدمیں ری پبلکن کے ایک سینئر ممبر نے کہا ہے وہ آیندہ 100برس تک وہ بہ خوشی یہ جنگ جاری رکھ سکیں گے۔امریکہ کی اسی روش کو اس کے اتحادی ممالک برطانیہ،سپین،آسٹریلیااوراٹلی نے بھی اپنایا اور بہت زیادہ رقوم ادھار لیں۔

ماہرین معاشیات کے مطابق ان ممالک نے قر ضے کے حصول کے لئے مالیاتی قوائد وضبوابط میں نرمی پیدا کی گی تاکہ قرضہ کا حصول ممکن ہو سکے ۔ قرض دینے والے اداروں کوپختہ یقین ہے کہ ان کو رقوم واپس نہیں ملیں گئیںکیو نکہ ان کے یہ قرض دار فوجی طور پر انتہائی مضبوط ہیں۔جس کی بناء ان اداروں میں یکدم اتنے زیادہ رقوم کی انخلاء نے ایک خلاء کی صورت پیدا کردی جس میں قرض دینے والے اداروں کے علاوہ جن کاروباری اداروں کے ان میں حصص (Shares)تھے ان سب کا دلوالیہ نکل گیا۔جس کے نتیجے میں بین الاقومی منڈی بھی بحران کے بھنور میں آگئی۔

امریکی حکومت کی جانب سے اپنی جاگیرداری برقرار رکھنے کی اس اندھی دھن نے امریکی عوام کو پریشیانی میں مبتلا جو کیا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں بے روزگاری میں بھی اضافہ ہو ہے۔U.S. Bureau of Labor Statistics کے مطابق بے روزگاری کا تناسب جنگ کے اولین سالوں یعنی 2003-05میں 4.5% سے4% تک رہا جبکہ 2008ء میں معاشی بحران کے بعد یہ تناسب دوگناہوکر 9.5% ہو گیا۔اس کے علاوہ وہاں پرتجارتی سرگرمیاں بھی سرد ہوتی نظر آرہی ہیں ۔دنیا کی تمام بڑی اشیاء کی تیاری اورخرید وفروخت اور انکی عالمی منڈیاں امریکہ سے باہر منتقل ہورہی ہیں۔

اگرچہ بش انتظامیہ نے معاشی بحران سے نکلنے کے لئے سبسڈی کا اعلان کیا تھا جس کی توثیق موجودہ صدر اوبامہ نے بھی کی مگر حقائق یہ ہیں کہ امریکن بیوروکریسی اور عوام اس معاشی دھچکے کے بعد جنگ کا خاتمہ چاہتی ہے اس لئے انہوں نے ری پبلکن کی بجائے ڈیموکریٹک کو منتخب کیا۔انہی کی ایما ء پر صدر اوبامہ نے20,مئی 2009 ئ بدنام زمانہ جیل گوانتانامو بے کو بند کرنے کی منظوری دے دی۔عوام کے ساتھ ساتھ اوبامہ انتظامیہ بھی اس جنگ کے حق میں نظر نہیں آتی کیونکہ اس جنگ کے ذریعے جھوٹی اجارہ داری کافی عرصے تک کامیاب رہنے کی بجائے اس کشتی کے ڈبوننے کے آثار زیادہ قوی نظر آتے ہیں۔اس لئے اس جنگ سے جلد سے جلد چھٹکارا حاصل کر نا چاہتے ہیں اگر ایسا نہ کیا تو امریکہ معاشی جنگ میں ہارے ہوئے حریف کی طرح ہمیشہ کے لئے پستی میں چلا جائے گا یہاںسے اس کی واپسی ناممکن ہے۔

Read more >>
Bookmark and Share

0 comments: